نام ونسب:
محمدسہول بن افضل حسین بن مولوی
امیرحسن بن مولوی رضی الدین بن علامہ شاہ شیخ کمال اہل
علم بن مولاناشیخ مزمل بن مولاناافقہ الدین بن مولاناشیخ
عبدالسلام بن مولاناقاضی فیض اللہ بن مولاناشیخ عثمان بن قاضی
مولاناشیخ محمدراجع بن قاضی مولانا نجیب الدین بن مخدوم
مولاناضیاء الدین بن شیخ احمداکرام مجتہدبن شیخ محمدبن شیخ
طیب بن شیخ طاہربن شیخ مسعودبن شیخ ابوسعیدابان بن
سیدناحضرت ذوالنورین عثمان بن عفان القریشی خلیفہ
ثالث رضی اللہ عنہ۔
حضرت مولانامفتی محمدسہول بن افضل
حسین رحمہ اللہ ،خود نوشت نسب نامہ ونسبی شجرہ کے مطابق ۲۶/ویں
پشت میں خلیفہ راشد،خلیفہٴ سوم سیدناعثمان بن عفان
رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولادمیں سے ہیں،شجرہ
کی حفاظت ،نسب کاضبط اورشجرہ طیبہ کے علمی وروحانی
کارنامے اس بات کابیّن ثبوت ہیں کہ مفتی محمدسہول صاحب رحمہ
اللہ عربی النسل ہیں ،عرب کے ممتازقبیلہ قریش سے تعلق
رکھتے ہیں اورحضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی صلبی
اولادہونے کے ناطے آپ ”عثمانی“کہلاتے ہیں۔
نسب کاحفظ وضبط عربوں کی وہ خصوصیت
ہے جس میں دیگراقوام کاان کے ساتھ موازنہ نہیں کیاجاسکتا،بلکہ
عجمیوں کے ہاں انساب کے غیرمحفوظ ہوجانے کی بنیادپرفقہاء
کرام نے تمام اعاجم کو”کفو“یعنی ایک دوسرے کاہم سرقراردیاہے۔
نسب نامہ کاماٰخذ:
حضرت مولانامفتی محمدسہول عثمانی
صاحب رحمہ اللہ کے نسب نامہ اوردیگراحوال زندگی کابنیادی
حصہ آپ کی خودنوشت تحریرہے،آپ کی خودنوشت کی معلومات
کامآخذ خاندان وبرادری کے طویل العمراشخاص کابیان،پرانی
مختلف محفوظ تحریرات اوراسی خاندان کے ایک بزرگ، حضرت مفتی
صاحب کے پردادامولوی رضی الدین رحمہ اللہ کارسالہ ”تذکرة
الانساب“اورمنظوم نسب نامہ ہے۔ اس کے علاوہ برسوں کی تحقیق کے
نتیجہ میں تحریراتِ قدیمہ وجدیدہ سے اپنے سلسلہٴ
نسب کے بارے میں جومعلومات یکجاہوسکیں ،انھیں حضرت مفتی
صاحب رحمہ اللہ نے اپنی سوانح عمری کے ضروری حوالہ جات کے
ساتھ”تعلیم الانساب“کے نام سے خودمرتب فرمارکھا تھا، جو تاحال مسودہ مخطوطہ
کی شکل میں ہے۔حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ نے اس یادداشت
میں ”تعلیم الانساب“ کی اہمیت ،فضیلت اورقدرومنزلت
کو خالص”عربی ذوق“کے تحت اجاگرکرنے کے بعد پورے سلسلہٴ نسب کاممکنہ
حدتک اصول وفروع کے زیرعنوان تعارف وتذکرہ پیش فرمایا ہے۔
۲۶/اصول اورہراصل کے تحت مختلف فروع ہیں،مثلاً فرع اول،فرع
دوم،فرع سوم کہہ کرکے ہراصل کی اولادکی تفصیلات درج کرنے
کااہتمام فرمایاگیاہے۔ اصول سے مرادسلسلہٴ نسب میں
لکھے گئے اجدادِ امجادہیں اورفروع سے ان کی اولادوں کاتذکرہ وتعارف ہے
،بالخصوص عربستان سے ہندوستان آنے کے بعد آپ کاخاندان کہاں آباد ہوا اور کیسے
کیسے کہاں کہاں پھیلتا پَھلتا چلاگیا؟ یہ تفصیلات
اتنی عمدگی سے مرتب فرمائی گئی ہیں کہ ان تفصیلات
کی روشنی میں آپ کے خاندان کے موجودہ افرادکوبآسانی ایک
لڑی میں پرویاجاسکتاہے۔حضرت مفتی صاحب نے ہندوستان
میں ”نسل عثمانی“کوجس اندازسے ضبط فرمایاہے، اگران لڑیوں
کے مختلف سِروں کوکوئی یکجاکرکے محفوظ کرناچاہے تواسے کسی دشواری
کاسامنانہیں ہوگا،اور عثمانی خاندان کا ہر بچہ پورے اعتمادکے ساتھ اپنی
عربی وعثمانی نسبت محفوظ رکھ سکے گا۔”تعلیم الانساب“کے اس
مسودہ کی اہمیت کااندازہ اس سے لگایا جاسکتاہے کہ حضرت مفتی
صاحب رحمہ اللہ نے اپنے علمی وعملی مشاغل سے بے بسی کے زمانے میں
اپنے ضعف اورجسمانی عوارض کے دور میں تقریباً ۱۳/برس
لگاکرمکمل فرمایاہے؛ چنانچہ خود تحریرفرماتے ہیں :
”اب جوکچھ لکھ رہاہوں برسوں کی تحقیق
کانتیجہ ہے،مختلف اوقات،مختلف اشخاص، اور مختلف تحریرات قدیمہ
وجدیدہ سے جوباتیں معلوم ہوتی گئیں ان کوبہ طوریادداشت
قلم بندکرتا گیا؛ مگر چونکہ وہ یادداشت پراگندہ اور غیرمرتب تھیں؛
اس لیے آج تاریخ ۱۳/جمادی الاولیٰ روز
پنجشنبہ ۱۳۴۱ھ مطابق ۱۸/جنوری ۱۹۳۳ھ
سے اُن کل پراگندہ اورغیرمرتب امورکو مہذب اورمرتب کرناشروع کردیاہے، وماتوفیقی الاباللہ ولاحول
ولاقوة الاباللہ العلی العظیم۔
اللہ تعالیٰ بہ حسن وخوبی انجام کوپہنچادے اوراللہ تعالیٰ
سے دعاہے کہ آئندہ نسل کواس سے نفع پہونچاوے، اور اس دینی خدمت کوقبول
فرمائے“۔(تعلیم الانساب ،ص:۷،۸)
حضرت کی تحریرسے پتہ چلتاہے
کہ آپ نے ”تعلیم الانساب“کی تسویدکاآغاز۱۳/جمادی
الاولیٰ۱۳۴۱ھ مطابق ۱۸/ جنوری
۱۹۳۳ء میں شروع فرمایا اوراختتام یکم
رجب المرجب ۱۳۶۲ھ مطابق ۲/جون ۱۹۴۶/
میں ہوا،مگرہمارے علم کے مطابق یہ مسودہ تاحال طبع نہ ہوسکا،امیدہے
کہ آپ کاخاندان اس کی اہمیت اورخاندانی ضرورت کے تحت اس قیمتی
خزانہ کو حضرت کی موجودہ وآئندہ نسل تک پہنچانے کا مناسب انتظام کرے
گا،وباللہ التوفیق!
نکاح:
دیوبندسے فراغت کے بعد حضرت شیخ
الہند کے حکم سے آپ شاہ
جہاں پورکے مقام پر مدرسہ عین العلوم میں صد رمدرس متعین ہوئے
،نوسالہ غیبوبت کے بعدآپ کے برادربزرگ مولوی محمدرسول مرحوم ایک
دن اچانک آپ کے پاس آگئے اورآ پ کواپنے ہمراہ آبائی وطن لے گئے ،جہاں آپ کے
انکارکے باوجودآپ کی شادی کااہتمام کیاگیا،جس کی
تفصیل آپ یوں رقم فرماتے ہیں:
”جب تقریباً آٹھ ماہ شاہجہان پورمیں
مدرسی کرچکاتوایک دن بلااطلاع شب کے وقت جناب بھائی مولوی
محمدرسول صاحب مدظلہ یکایک ہمارے پاس پہنچے ،چونکہ تقریباًنوسال
کے بعدبلاوہم وگمان ملاقات ہوئی تومیں نے ان کونہیں
پہچانا؛مگرتھوڑی دیرکے بعدپہچان لیااوردونوں بھائی لپٹ
کرخوب دل کھول کرروئے،الغرض بھائی صاحب ممدوح مجھ کولے کر بھاگل پورروانہ
ہوئے․․․․․ الغرض ۲۴/سال کی عمرمیں
رمضان شریف ۱۳۱۹ھ میں نکاح ہوااورشوال ۱۳۱۹ھ
میں رخصتی ہوئی ،جن سے ہمارانکاح ہواان کاسلسلہٴ نسب حسب
ذیل ہے:
بی بی فروقن بنت صغریٰ
منشی محمدامجدبن محمدقائم ابن قدرت اللہ عرف ملاھیگن بن محمدوحی
بن شیخ الاسلام بن شیخ احمدسعید․․․․․․بی
بی فروقن منکوحہ کمترین نہایت صالحہ اوربہت سی خوبیوں
کی جامع تھیں؛مگرنہایت افسوس ہے کہ ان کاماہ رجب ۱۳۲۰ھ
میں انتقال ہوگیا اورایک لڑکی بی بی حمیدہ
کوشیرخوارچھوڑگئیں،دخترم بی بی حمیدہ بھی چھ
سال کی عمرمیں اپنی ماں سے مل گئی ،انا للہ واناالیہ
راجعون“۔ (تعلیم الانساب ،ص:۱۶،۱۷)
عقد ثانی اور اولاد:
”قیام دیوبندکے زمانے میں
حضرت شیخ الہندمولانامحمودحسن دیوبندی کے شدیداصرارکی وجہ سے جب کہ ہماری عمراکتیس
برس کی تھی، ۱۳۲۶ھ میں بی بی
خدیجہ (۱۳۱۳ھ- ۱۳۸۲ھ) چھوٹی
لڑکی مولوی فقیرحسن صاحب مرحوم سرشتہ دارعدالت منصفی
بھاگل پورسے عقد معہ رخصتی ہوئی، بی بی خدیجہ
کاسلسلہٴ نسب حسب ذیل ہے:
بی بی خدیجہ (بنت صغریٰ
)مولوی فقیرحسن صاحب صدیقی بن منشی انورعلی
صدیقی بن شیخ قاسم علی بن شیخ اکبرعلی بن شیخ
قاضی رحیم الزمان عرف بساون بن شیخ کریم الزمان عرف دولت
صدیقی بن نیک محمدبن حضرت قدوة السالکین زبدة العارفین
شاہ محمدقاسم قدس سرہ العزیزکہ بخاراسے ۱۰۴۲ھ میں
بھاگلپورتشریف لاکرموضع مجدنو گائین ضلع بھاگلپورمیں قیام
فرمایا۔اسی موضع میں ان کامزارہے،بن شیخ ناظم علی
بن شیخ نادرعلی بن شیخ داورعلی بن شیخ سراج الدین
بن شیخ نظام الدین بن شیخ تاج الدین احمدبن فیض علی
بن الطاف علی بن یعقوب علی بن رحمت علی بن عباس علی
بن شیخ اسحاق احمد بن شیخ واصف علی بن شیخ مکرم الحق بن
شاہ عاصم علی بن اکرام احمدبغدادی ان کامزاربغدادکے شہرپناہ کے دروازے
پرہے،بن شیخ ظفرالاسلام بن شیخ عشق الاسلام بن شیخ عاشق احمد بن
شیخ کاظم علی بن شیخ عبدالرزاق بن حضرت عبدالرحمن رضی
اللہ عنہ بن حضرت ابوبکرصدیق خلیفہ اول رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم۔
بی بی خدیجہ زوجہ ثانیہ
کے بطن سے آج ۲۵/شوال ۱۳۶۴ھ مطابق ۳/اکتوبر۱۹۴۵ء
تک گیارہ اولاداللہ تعالیٰ نے عطافرمائی ہے،ان میں
سے پانچ نے نابالغی میں انتقال کیااورباقی چھ بفضلہ تعالیٰ
بقیدحیات ہیں․․․․․․․․ان
چھ اولادوں کانام ترتیب واریہ ہے:
۱- بی
بی صفیہ سلمہا
۲- محمداحمد(تاریخی
نام مظفرعلی ہے(۱۳۳۰ھ))
۳- بی
بی زکیہ سلمہا
۴- محموداحمدسلمہ(تاریخی
نام محمدظفیراحمدہے(۱۳۳۵ھ))
۵- بی
بی علیہ سلمہا
۶- امام
الہدیٰ معروف مسروراحمدسلمہ“۔
(تعلیم الانساب،ص:۱۸،۱۹)
اس کے بعد حضرت نے اپنی اولادکی
شادیوں اوراولادکی تفصیلات تک قلمبندفرمائی ہیں،اب
آگے ان کی آل اولادکی ہمت ورغبت ہے کہ وہ نسب نامہ کی حفاظت کی
عربی رسم کاپاس کہاں تک رکھتے ہیں،اپنی صدیقی
وعثمانی نسبت کاتقدس کہاں تک سنبھالتے ہیں ،آپ کی آل اولادپاک
وہندمیں جہاں بھی ہے ان کی خوش بختی ہوگی کہ حق
تعالیٰ شانہ کے مندرجہ ذیل وعدہ کامصداق بننے کے لیے ایمان
وعمل میں آگے بڑھیں:
﴿وَالَّذِیْنَ
آمَنُوا وَاتَّبَعَتْھُمْ ذُرِّیَّتُھُم بِإِیْمَانٍ أَلْحَقْنَا
بِھِمْ ذُرِّیَّتَھُمْ وَمَا أَلَتْنَاھُم مِّنْ عَمَلِھِم مِّن شَیْءٍ
کُلُّ امْرِءٍ بِمَا کَسَبَ رَھِیْنٌ ﴾ (الطور:۲۱)
ترجمہ:اورجولوگ ایمان لائے اوران کی
اولادنے بھی ایمان میں ان کاساتھ دیا،ہم ان کی
اولادکوبھی (درجہ میں )ان کے ساتھ شامل کردیں گے،اوران کے عمل میں
سے کوئی چیزکم نہیں کریں گے۔ہرشخص اپنے اعمال میں
محبوس رہے گا۔(ترجمہ حضرت تھانوی)
حرمین اور بغداد سے بھاگل پور:
حضرت مفتی صاحب قدس سرہ العزیزکاخاندان
،مکہ ،مدینہ اوربغدادسے ہوتاہوا ہندوستان کے مشہورومعروف علاقہ بھاگل پورمیں
جلوہ افروزہوا اوریہیں دینی ونسبی نشوونماپائی
اور بھاگلپور آپ کاوطن اصلی تھا،اس لیے مکین سے مکان کی
شہرت ہوئی اورمکان بھی آپ کی اورآپ کے خاندان کی شناخت میں
شامل ہوگیا اورآپ علاقائی نسبت سے بھاگلپوری کہلانے لگے، اور
ہندوستانی رسم کے مطابق اپنے دورمیں علاقائی نسبت کاشہرہ خاندانی
نسبت سے زیادہ عام رہا، چنانچہ تاریخ دارالعلوم دیوبند،سفرنامہ
اسیرمالٹا اوربیس بڑے مسلمان وغیرہ میں آپ کو مولانا محمد
سہول بھاگلپوری کے نام سے لکھاگیاہے،بھاگلپور کی نسبت ا س لیے
بھی جچتی ہے کہ بھاگلپورگیارہ پشتوں سے آپ کے خاندان کاوطنِ
مالوف رہاہے،آپ کے گیارہویں جدا مجد حضرت اقدس شیخ افقہ الدین
عثمانی رحمہ اللہ جنہیں خود حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ”تعلیم
الانساب“ کے اصطلاحی عنوان کے مطابق گیارہویں اصل سے تعبیرفرماتے
ہیں،وہ بغدادسے ہندوستان بھاگلپورتشریف لائے تھے ،ان کے بارے میں
ارشادفرماتے ہیں کہ:
”گیارہویں اصل حضرت مولاناشیخ
افقہ الدین عثمانی رحمة اللہ علیہ بن شیخ عبدالسلام عثمانی
ان کاوطن موضع”سنام“ضلع بغدادمیں تھا،اپنے زمانے کے بڑے عالم ودرویش
تھے،گردش زمانہ کی وجہ سے اپنے وطن کوترک کیا،اوررفتہ رفتہ
شہربھاگلپورمیں پہنچے اوریہاں اپنے علوم وفیوض سے سب
کوسرفرازفرمایا،اورجب ان کی شہرت ومقبولیت اطراف وجوانب میں
پھیل گئی توموضع ہمایون جوکجریلی کے نام سے مشہورہے
اورجواس زمانہ میں علماء وشرفاء سے مملوتھا،وہاں تشریف لے گئے، اور وہیں
قیام فرمایا،شیخ افقہ الدین رحمة اللہ علیہ کجریلی
میں قیام کرکے اپنے زمانے میں اتباع شریعت اورپرہیزگاری
،وسعت رزق اوراعزازمیں اپنے اماثل سے بہت زیادہ بڑھ گئے،تعلیم
الانساب میں شیخ افقہ الدین سے متعلق مولوی فقیرحسن
مرحوم کی ایک نظم میں یہ مضمون یوں بیان کیاگیاہے:
وزات
کو بغداد کے چھوڑکر حکومت سے دنیاکے منہ موڑکر
چلے
آئے تھے افقہ الدین یہاں کہ ترویج دین ہوبہ ہندوستان
(ارمغان سخی ،مصنفہ مولوی فقیرحسن
مرحوم،بحوالہ تعلیم الانساب،ص:۸۵)
بھاگل پورکی علمی روحانی اورسیاسی سیادت:
چنانچہ ”شیخ عثمانی خاندان“
بھاگلپورکاعلمی وروحانی خاندان شمارہوتاہے،آپ کے آباء واجدادکے علمی
کمالات اورروحانی اثرات کی شہرت وفیض رسانی مقامی
آبادی سے لے کر اقتدار کے ایوانوں تک پھیلی ہوئی تھی
،نویں جدامجدشاہ کمال اہل علم کے بارے میں حضرت اپنی خودنوشت میں
تحریرفرماتے ہیں :
”(نویں اصل)حضرت علامہ شاہ شیخ
کمال اہل علم رحمة اللہ علیہ :حضرت علامہ شاہ شیخ کمال کوبادشاہ اسلام
کی طرف سے ”اہل علم“کاخطاب دیاگیاتھا اورموضع کجریلی
اور دیگر چند مواضع ان کوبہ طورجاگیرکے وجہ معیشت میں دی
گئی تھی،علامہ ممدوح اپنے دیارکے تمام علماء کے سردارشمارکیے
جاتے تھے،اورظاہراً وباطناً اتباع شریعت میں بہت مشہوراورنامورتھے،اوردرویشی
وولایت کوحضرت مولانامحمدشہبازرحمة اللہ علیہ ساکن محلہ ملاچک بھاگل
پور سے حاصل کیاتھا، الغرض دین ودنیادونوں کے اعتبارسے
معززوممتازتھے“۔(تعلیم الانساب، ص:۷۲)
اسی طرح شیخ شاہ کمال اہل علم
کے نواسے اورحضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ کے پرداد،سلسلہ عثمانیہ کی
چوتھی کڑی شیخ رضی الدین بن مولوی محمدعلیم
ہیں ،ان کے بارے میں تحریرفرماتے ہیں:
”(چوتھی اصل)مولوی رضی
الدین صاحب عثمانی مرحوم: ان کی تحریریں نظم ونثرمیں
متعدد دیکھی ہیں، اس سے معلوم ہوتاہے کہ ان کوعربی میں
معتدبہ لیاقت اورفارسی میں کامل دستگاہ تھی، نسب نامہ
منظوم اورتذکرة الانساب ان ہی کی تصنیف سے ہے،یہ بہت
متواضع ودیندارتھے، صلہ رحمی اورحفظ نسب کابہت خیال رکھتے تھے“۔
(تعلیم الانساب،ص:۳۳)
مزیدفرماتے ہیں کہ:
”جوکچھ میں نے شیخ رضی
الدین (نواسہٴ شاہ کمال اہل علم)کی حالت حضرت والدماجد رحمة
اللہ علیہ ودیگربزرگوں سے سنی ہے وہ یہ ہے:شیخ رضی
الدین مذکوراگرچہ خاندان کے اعتبار سے بہت شریف تھے،مگرعلم اورمال کے
اعتبارسے کالعدم تھے ،اسی وجہ سے شادی کرنے کے بعد اپنے سسرشیخ
محمدساکن کربریاکے مکان میں مع اپنی بیوی کے رہتے
تھے،(آگے شیخ مرحوم کے ساتھ ان کے سسربزرگوارکی جانب سے بے التفاتی
کاایک واقعہ نقل کیاگیاہے ،جس کے نتیجے میں شیخ
رضی الدین نے کمال شرافت کے ساتھ غیرت مندی کاایک ایساقدم
اٹھایاکہ جاتے ہوئے اپنی اہلیہ محترمہ کویوں خطاب کرتے
ہوئے،سسرصاحب کے گھرسے لاپتہ ہوگئے کہ )”تم اپنے باپ کے یہاں رہو اورمیں
بھاگل پورچھوڑکردوسری جگہ جاتاہوں اورجب تک اللہ تعالیٰ مجھے کسی
بڑی معززجگہ میں ممتازنہیں کرے گا میں یہاں نہیں
آوٴں گا“یہ کہہ کراپنے سسرشیخ محمدکے مکان موضع کربریاسے
نکل کر لاپتہ ہوگئے،اورفقیری اورطالب علمی کرتے ہوئے رفتہ رفتہ
شہردہلی میں پہونچے اوروہاں شاہی مدرسہ میں طالب علمی
شروع کردی،اوردیگرطلباء سے ممتازسمجھے جانے لگے اورچندسال میں
بہت مشہورعالم ہوکرشاہی مدرسہ میں مدرس ہوگئے اورترقی کرتے کرتے
اعلیٰ ہوگئے،اس زمانہ میں عالمگیربادشاہ سے دکن کے باغیوں
کی بہت سخت لڑائی تھی،چونکہ شیخ رضی الدین فن
جہاد اوربہادری میں بہت ممتازسمجھے جاتے تھے ،ا س لیے بادشاہ کی
طرف سے سپہ سالار اعظم بناکرجہادکے لیے بھیج دیے گئے ،شیخ
رضی الدین فتح حاصل کرکے جب دہلی واپس ہوئے توعالمگیربادشاہ
ان سے بہت خوش ہوا اوران سے کہاکہ تم کیاچاہتے ہو،توانھوں نے اپناضروری
حال مختصربیان کرکے کہا کہ:میں اپنے وطن بھاگل پورمیں
جاناچاہتاہوں، مجھ کواپنے وطن پہنچانے کاعمدہ سامان کردیاجائے اوراپنے وطن
بھاگل پورمیں جب میں پہنچ جاوٴں توبھاگل پورکے حکام سے جومیں
چاہوں پوراہوجاوے،بادشاہ نے ان کی اس خواہش کومنظورکیااورنہایت
جاہ وحشم کے ساتھ شیخ رضی الدین اپنے وطن پہنچے اوراپنے آبائی
مکان سے کچھ فاصلہ پراجنبی بن کرشاہی افسرہوکرقیام کیااوربہت
زیادہ دادودہش کرناشروع کیا،خصوصاً اپنی بستی کے لوگوں کے
ساتھ بہت زیادہ ہرطرح سے ہمدردی کرنے لگے،شیخ رضی الدین
صاحب ممدوح کی والدہ اس وقت زندہ تھیں اوراپنے بیٹے کے یکایک
لاپتہ ہوجانے اورعرصہ درازتک ان کاحال نہ جاننے کی وجہ سے بے انتہا مغموم
ہوکرنابیناہوگئی تھیں،شیخ رضی الدین نے اپنی
ہوشیاری اوردانائی کی وجہ سے اپنی والدہ پراپنے
کوآہستہ آہستہ ظاہرکیا“۔(تعلیم الانساب،ص:۷۱،۷۲)
حضرت مفتی صاحب کے بقول شیخ
رضی الدین کے احوال ان کی اپنی تحریر ”تذکرة
الانساب“، مآثرالامراء،موٴلفہ: میرعبدالرزاق اورمآثرعالمگیری
موٴلفہ:محمدساقی مستعدخان میں بزبان فارسی موجودہیں۔
ان تینوں کتابوں سے آپ کے احوال
اخذکرکے خاندانی روایات کی روشنی میں حضرت مفتی
محمدسہول صاحب رحمة اللہ علیہ نے آپ کے احوال وواقعات تحریرفرمائے ہیں،مذکورہ
تینوں کتابوں سے معلوم ہوتاہے کہ شیخ رضی الدین نے کبرسنی
میں تعلیم شروع کرکے نہ صرف یہ کہ طلباء وعلماء کے درمیان
نمایاں مقام پایا؛بلکہ اپنی خدادادصلاحیتوں اورخاندانی
نجابت وبسالت کی بنیادپربادشاہ وقت اورنگ زیب عالمگیرمرحوم
کی مردم شناس نگاہوں میں مقام بھی پالیاتھا اورانھوں نے
اپنی حکومت کے بعض باغیوں کی سرکوبی کے لیے حیدرآباددکن
کی مہم کے لیے شیخ رضی الدین کوبہ طورسپہ سالاراعظم
کے نامزدکیااوروہ بحمداللہ مہم سرکرکے دہلی پہنچے تواورنگ زیب
نے آپ کے عالمانہ مقام اوردبدبے کے ساتھ ساتھ آپ کے آبائی وطن بھاگل پورکے
حکام کی سرپرستی وبالادستی سے نوازااورآپ کادنیوی
مقام ودبدبہ بھی آشکارافرمایا؛چنانچہ برسہاقبل ایک گھریلوبے
التفاتی وبے وقعتی پرغیرت کاقدم اٹھاکرلاپتہ ہونے والارضی
الدین بھاگل پورکارئیس الامراء بن کرواپس لوٹااورحضرت یوسف علیہ
السلام کی مانند دھیرے دھیرے اپنے آپ کوظاہرفرمایا۔
چنانچہ مذکورہ کتابیں آپ کا تعارف
کراتے ہوئے بتاتی ہیں کہ” شیخ رضی الدین از اشراف
بھاگل پور،بہارست،فاضل متبحر درموٴلفین فتاویٰ عالمگیری
منخرط بود“۔
”حکومت وقت کے تحت بڑی مہمات سرکرنے
کی بنا پر دستورز مانی کے مطابق رضی الدین خان کالقب بھی
پایا، اور بالآخر صوبہ برار(بہار)میں ایک معرکہ جہادمیں ۱۰۹۷ھ
میں شہادت سے سرفرازہوئے“۔ (الاعلام بمن فی تاریخ الہند
من الأعلام ”نزھة الخواطر“ عبدالحی الحسنی،حرف الراء، برقم:۲۳۵،القرن
الحادی عشر،ج:۵،ص:۵۳۰،ط:دارابن حزم۔فتاویٰ
عالمگیری کے موٴلفین،ص:۱۰۵،ازمجیب
ندوی،ط:دیال سنگھ لائبریری)
کان پورمیں تعلیم وتدریس:
کان پورمیں آپ نے تعلیم
کاآغازکیسے کیا؟اورکہاں کہاں سے ہوتے ہوئے کیسے کیسے
مراحل سے گزرکر کان پورکی کن کن درسگاہوں کواپناوطن بنائے رکھا ؟اورکن کن
اساتذہ ومشائخ سے کیاکیااستفادہ کیا؟اس کی تفصیلات
خودنوشت میں یوں درج ہیں:
آغازتعلیم ،مختلف مراحل ومشکلات:
”میں نے اپنے ہوش میں
والدکواردومڈل ورنیکولراسکول واقع موضع پورینی ضلع بھاگل پورمیں
مدرس پایا اوراسکول کے خارج وقت میں اپنے مکان پربہ طورخودتعلیم
دیتے تھے؛اس لیے ہماری تعلیم ابتدا سے زلیخااورانشائے
خلیفہ تک والدمرحوم ہی سے ہوئی۔
اور اسکول مذکورالصدر میں بھی
حساب ،اردو،ہندی پڑھتا رہا۔جب میں اسکول سے سیکنڈ کلاس
(درجہ دوم) میں پہنچا توحسب اتفاق اسکول ٹوٹ گیا،غرضے کہ اسکول کی
تعلیم ہماری موقوف ہوگئی اور والد مرحوم کی نوکری
بہ وجہ کبر سنی کے سرکار ی قاعدہ سے قبل ہی موقوف ہوگئی
تھی اور چونکہ اسکول کی ملازمت پر اتنی طویل مدت نہیں
گزری تھی کہ پنشن کے مستحق ہوتے؛ اس لیے کچھ روپیہ بہ طور
انعام کے گورنمنٹ نے ان کو دیااور علیحدہ کردیا، حضرت والد
مرحوم کی غایت ضعیفی کاعالم اور نوکری کا موقوف
ہونا اور چھ سات آدمی کے خوردنوش کا بار یہ تینوں باتیں
مل کر مفلسی اور تنگدستی اور فاقہ کشی وغیرہ تکالیف
کی انتہا ہوگئی ۔ ایسی حالت میں ہمارے پڑھنے
کی کوئی صورت نہیں تھی۔ اتفاقاً جب کہ ہماری
عمر غالباً دس گیارہ برس کی ہوگی تقاضہٴ سن کی وجہ
سے ہم سے اور ہماری چھوٹی بہن عزیزی وصالاً سلمہا سے لڑائی
ہوئی اس لڑائی میں ہماری زبان سے عزیزی سلمہا
کے بارے میں ناگوار الفاظ نکل گئے، اس وجہ سے والد مرحوم کو بہت غصہ ہوا اور
مجھ کو گھر سے نکال دیا، میں والد مرحوم کے ڈر سے پورینی
سے بھاگلپور چلاگیا وہاں ملاچک میں ہماری علاتی ہمشیرہ
بی بی شافعہ زوجہ مولوی اظہر حسین ہاشمی کا مکان
تھا ،ہمشیرہ ممدوحہ کے پاس چلاگیا وہاں چند روز تک جب قیام کے
بعد مولوی اظہر حسین صاحب ممدوح کو ہمارا قیام ان کے پاس گراں
گزرا اور مجھ کو صاف لفظوں میں کہا کہ تم اب اپنا انتظام کرو۔اس واقعہ
کو جب مولوی اظہر حسین صاحب کے بھائی مظفر حسین نے سنا تو
ان کو اظہر حسین صاحب کے اس کلام سے نہایت ملال ہوا اور اپنے پاس مجھ
کو بلاکر رکھا چند روز میں بھائی مظفر حسین ہاشمی کے پاس
رہا اور اسی درمیان میں جناب استاذی مولانا شاہ اشرف عالم
صاحب سجادہ نشین خانقاہ حضرت قدوة العارفین مولانا شاہ باز محمدکی
خدمت میں خود حاضر ہوکر خانقاہ مذکو ر میں جاگیر مقرر کرایا
اور بھائی مظفر حسین صاحب کے پاس سے قیام ترک کرکے خانقاہ میں
قیام اختیار کیا۔ خانقاہ میں دونوں وقت تین تین
چھٹانک کا بھات اور کچی ماش کی بھوسی بھری دال جس میں
صرف نمک اور پانی ہوتاتھا ،روزانہ دونوں وقت فقط یہی ملتا تھا،
ترکاری کسی قسم کی کبھی نہیں اور نہ کبھی چٹنی
وغیرہ کچھ بھی نہیں ،تقریباً ۴ برس عاجز اُسی
خانقاہ میں طالبعلمی کرتا رہا اور یہی کھاتا رہا ، اول
اول جب میں خانقاہ گیا تو چند ماہ تک انگریزی پڑھتارہا
؛مگر میں والد صاحب کے ڈ ر کی وجہ سے مکان نہیں گیا،بالآخر
جناب بھائی مولوی محمد رسول صاحب مد ظلہ العالی مجھ کو مکان لے
گئے، والد نے کہا بہتر ہوکہ تم عربی شروع کرو؛ تاکہ خاندان کا علم باقی
رہے ،والد کے فرمانے سے میں بھاگلپور آکر استاذی حضرت مولانا شاہ اشرف
عالم صاحب کی خدمت میں عربی پڑھنے کی درخواست کی،
مولانا ممدوح نے ہماری درخواست قبول فرمائی اور میزان الصرف
شروع کرادی۔
مولانا ممدوح کی شفقت اس عاجز پر
رفتہ رفتہ اس قدر ہوگئی کہ حضرت استاذی اپنے خلاف عادت روزانہ بعد
المغرب صرف ہمارے مشق کرانے کے لیے عشاء تک خانقاہ میں نشست فرمانے
لگے، رفتہ رفتہ حضرت استاذی نے اپنے اوپر مغرب سے عشاء تک خانقاہ میں
قیام لازم فرمالیا اور عمر بھرا س کو انجام دیا،بہر کیف
نہایت محنت اور شفقت کے ساتھ حضرت استاذی نے مجھ کو تعلیم دینا
شروع کیا،مجھ کو خوب یاد ہے کہ جب میں نے کافیہ شروع کیا
تو والد مرحوم نے والدہ مرحومہ سے میرے سامنے نہایت مسرت کے ساتھ فرمایا
کہ: اب ہمارا بیٹا مولوی ہوجائے گا۔
غرضے کہ والد مرحوم کو ہمارے عربی
پڑھنے سے نہایت مسرت تھی،جب میں کافیہ پڑھتاتھا اسی
زمانہ میں والد مرحوم کا انتقال ہوگیا،اناللہ وانا الیہ راجعون
!والد مرحوم کی وفات کے بعد افلاس اور تنگدستی اور بھی زیادہ
ہوگئی فاقہ پر فاقہ گزر جاتاتھا ،ایسا بہت ہواہے کہ تاڑ کے زمانہ میں
دو سروں سے تاڑ طلب کیا گیا اور اس سے بھوک دفع کر کے اس کی
گٹھلی مالک کو واپس دے دی گئی۔
میں اسی تنگدستی کی
وجہ سے بھاگلپور سے پورینی کئی کئی ماہ بعد آتاتھا اور
اپنی طالبعلمی کی خوراک سے تھوڑا تھوڑا چاول کاٹ کاٹ کر اکثر
جمع کرتاتھا،جب سیر دو سیر چاول ہوجاتاتھا تو اس کولے کر والدہ مرحومہ
کی خدمت میں جاتاتھا تو وہ بہت خوش ہوتی تھیں اور اس کو
پکا کر خود بھی کھاتی تھیں اوراپنے بچوں کو بھی کھلاتی
تھیں غرضے کہ والد اور والدہ کی تنگدستی اخیر عمر میں
حد سے زیادہ رہی؛ مگر صبر کے ساتھ اس زمانہ کو انھوں نے کاٹا ۔
غرضے کہ تقریباً ۴ سال میں خانقاہ ملاچک میں طالبعلمی
کرتارہا،اسی زمانہ میں استاذی حضرت مولانا شاہ عالم صاحب برادر
مولانا شاہ اشرف عالم صاحب سے بھی عربی و فارسی پڑھی۔
اور استاذی جناب مولانا محمد وحید
صاحب جو تقریباً ۸۰
یا ۹۰ سال کے ہونگے اور فن منطق سے خوب واقف تھے، ان کی
خدمت میں شرح تہذیب اور مناظرہ رشید یہ پڑھا،یہ
دونوں کتابیں قلمی بہ خط میرے پاس تھیں ،مولانا اپنی
ضعیفی کی وجہ سے لیٹے رہتے تھے اور میں عبارت
پڑھتاتھا تو وہ مطلب بیان فرماتے تھے ۔خود ضعف بصر کی وجہ سے
مطلقاً کتاب نہیں دیکھتے تھے اور جناب مولانا شفاعت حسین صاحب گیاوی
جو بھاگلپور خلیفہ باغ کی مسجد میں مدرسہ اسلامیہ کے مدرس
مقرر ہوئے تھے ان سے بھی کچھ فقہ اور منطق پڑھا ۔ استاذی مولانا
شفاعت حسین صاحب سے ہندوستان کے مشہور تعلیم گاہوں کا پتہ معلوم ہوا
،حضرت مولانا شفاعت حسین صاحب سے ملاقات کے قبل کسی درسگاہ سے میں
واقف نہیں تھا ،مولانا شفاعت حسین صاحب سے ہندوستان کے بڑے بڑے مدارس
اور علماء کا تذکرہ سن کر بیحد شوق ہوا کہ کسی طور سے وہاں جاکر علم
حاصل کروں۔
ایام قیام خانقاہ ملا چک میں
والد مرحوم و نیز استاذ ی مولانا شاہ اشرف عالم صاحب برابر تاکید
فرماتے تھے کہ حضرت مولانا شاہ باز کے مزار کے قریب اور حضرت ممدوح کے مقام درس و نشست کی
جگہ پر بیٹھ کر مطالعہ دیکھا کرو اور یاد کیا کرو تو برکت
ہوگی،اس وجہ سے میں رات و دن انھیں مقامات پر اکثر کتب بینی
کرتا تھا،جس کا بیّن فائدہ میں محسوس کرتاتھا۔غرضے کہ جب مشاہیر
درس گاہوں میں حاضری کا شوق مجھ پر غالب ہوا اور کوئی سامان زاد
راہ کا ہمارے پاس نہیں تھا؛ اس لیے بہت متردد و متفکر رہتاتھا؛مگر سبق
برابر پڑھتاتھا۔
اتفاقاًہمارے حقیقی پھوپھی
زاد بھائی جناب مولوی فقیر حسن صاحب برشتہ دار مرحوم کی بیوی
نے مجھ کو کچھ روپیہ دیا کہ شہر بھاگلپور کے فلاں دکان میں اس
قدر روپیہ جمع کردینا اور فلاں فلاں چیز خرید کر کے لادینا
،مجھ پر سفر کا شوق غالب تھا ۔اس میں سولہ روپیہ تو میں
نے ان روپیوں میں سے اپنے پاس رکھ لیا اور باقی روپیہ
کو مصرف میں خرچ کیا ۔
اور کل چیزیں اپنے دوست قلبی
مولوی محمد یٰسین صاحب بہاری جواسی خانقاہ میں
طالبعلمی کرتے تھے ، ان کے حوالے کردیا کہ کل چیزیں پورینی
پہنچوادینا ،اس وقت نورالانوار شرح وقایہ۔ قطبی بندہ
پڑھتا تھا اور غالباً ہماری عمر اس وقت سولہ برس کی تھی
اورابتدائے پیدائش سے اس وقت تک ریل پرسوارنہیں ہواتھا، چونکہ
مولوی یٰسین صاحب مرحوم ریل کی سواری
سے واقف تھے ،اس لیے وہ ہمارے ساتھ اسٹیشن بھاگلپور جاکر آرہ کا ٹکٹ
خرید کر کے ریل پر سوار کردیا،اس زمانہ میں مولا نا ابراہیم
صاحب کا مدرسہ احمد یہ آرہ میں بہت مشہور ہورہاتھا؛اس لیے وہاں
کا ارادہ ہوا،جب مدرسہ احمدیہ میں پہنچا تو چونکہ وہاں سب لوگ غیر
مقلد تھے؛ اس لیے دل نہیں لگا؛ حالانکہ اس مدرسہ میں بعض لوگ
ہماری برادری کے بھی پڑھتے تھے ،حکیم عبد الطیف جو
اب قادیانی ہیں، انھوں نے مجھ کو روکنا چاہا؛ مگر میں نہیں
رکا اور وہاں سے کانپور روانہ ہوگیا، مدرسہ احمدیہ ہی میں
ایک طالب علم کانپور کے جو بہت خوشحال تھے بوجہ غیر مقلد ہونے کے
پڑھتے تھے ۔انھوں نے اپنے والد کے نام ایک خط ہمارے کھانے پینے
کے واسطے لکھ دیا، غرضے کہ میں کانپور پہنچا اور سیدھا اسی
طالب علم کے والد کے پاس پہنچا انھوں نے فوراً اپنے گھر میں ہمارا کھانا
مقرر کردیا،اس وقت کانپور عربی تعلیم کا مرکز بنا ہوا تھا ۔اور
مشاہر علما ء ہند وہاں تعلیم دیتے تھے ، بڑے بڑے کئی مدرسے تھے ۔
میں تو بھاگلپور میں استاذی
مولانا شفاعت حسین صاحب سے استاذ الفضلاء حضرت حاجی صوفی
مولانااحمد حسن صاحب کی بے انتہا تعریف سُن چکا تھا؛اس لیے ان کی
خدمت میں کانپور حاضر ہوا مگر اسی زمانہ میں وہ سفر حج کے سامان
میں تھے؛اس لیے اسباق کو رفتہ رفتہ موقوف کر رہے تھے ،جب یہاں
اسباق کا انتظام نہیں ہواتو مدرسہ جامع العلوم میں گیا،اس وقت
اس مدرسہ کے مدرس اول حضرت حافظ حاجی قاری حکیم الامت مولانا
اشرف علی صاحب تھانوی مدظلہ تھے۔وہاں اسباق کا معقول انتظام ہوگیا
اور نورالانوار،قطبی ،ہدیہ سعیدیہ وہاں شروع کیا۔
حضرت حافظ مولانا محمد اسحق صاحب بردوانی
مد ظلہ العالی اور مولانا محمد رشید صاحب کانپوری کی خدمت
میں اسباق ہونے لگے ۔مدرسہ جامع العلوم اس زمانہ میں بہت عروج
پر تھا،کئی سو طلبہ وہاں پڑھتے تھے ۔اور بااعتبار تعلیم علوم دینیہ
حدیث و تفسیر فقہ وغیرہ میں وہ مدرسہ بہت ممتاز تھا ،اور
علوم عقلیہ منطق فلسفہ وغیرہ کی طرف وہاں توجہ کم تھی اور
اس وقت مجھ کو علوم عقلیہ کا بہت زیادہ شوق تھا؛اس لیے جامع
العلوم میں دل نہیں لگتا تھا جب مولانا احمد حسن صاحب تیسری
مرتبہ حج کو تشریف لے گئے اور مکہ معظمہ میں اپنے مرشد شیخ
المشایخ حضرت حاجی امداداللہ صاحب کی خدمت میں زیادہ روز کے قیام کاارادہ
ہواتومدرسہ فیض عام میں ان کی جگہ پراستاذی حضرت مولانا
محمد فاروق صاحب اعظم گڑھی
(چریاکوٹی)مقررہوئے،حضرت ممدوح اپنے زمانہ میں علوم عقلیہ
اورفنون ادب میں بے نظیرتسلیم کیے جاتے تھے،علامہ شبلی
نعمانی کوان کی شاگردی پرفخرتھا،علامہ ممدوح ان کے مخصوص شاگرد
تھے، جب مدرسہ فیض عام میں مولانافاروق صاحب تشریف لائے، توطلبہ
کاامتحان لے کراپنے مدرسہ میں داخل کرنا شروع کیا،اورخودمولانافاروق
صاحب کی خدمت میں تلخیص اورقطبی تصدیقات شروع کیا،
اور بحمداللہ ان کی خدمت میں یہ دونوں پوری ہوئیں
اورجس طرح میں چاہتاتھااس سے بدرجہابہتر اور نفیس طورپرہوئی۔
فن تصدیقات ومعانی وبلاغت میں
حضرت ممدوح کی خدمت میں بحمداللہ مجھ کواچھی مناسبت ہوگئی،اسی
زمانہ میں مکان سے آنے کے ایک سال بعدمیں کانپورمیں سخت
علیل ہوا، اسی علالت کے زمانہ میں جناب بھائی مولوی
محمدمحفوظ صاحب وکیل اپنے مرشدقدوة السالکین امام الواصلین حضرت
مولاناشاہ فضل الرحمن گنج مرادآبادی کی خدمت سے واپسی کے وقت
کانپور تشریف لائے، اورمجھ کوعلالت کی حالت میں دیکھ
کراپنے ساتھ مکان لے جانے کو مستعد ہوئے، مگر میں مکان جانے پراس لیے
راضی نہیں ہواکہ مکان پہنچ کرپھرواپس ہونابہت دشوارمعلوم ہوگاکیونکہ
اپنی اور والدہ مرحومہ کی شدیدافلاس سے میں واقف تھا
مگرجب کہ ہمارے کل احباب ہماری حیات سے ناامیدہوگئے توسبھوں نے
مجھ کوکانپورمیں ریل پرسوارکردیا،اوربھاگلپورکاٹکٹ خریدکرمجھ
کو دیدیا، اللہ کے فضل سے ریل پربیماری میں
بہت زیادہ تخفیف ہوگی،یہاں تک کہ خلاف توقع مکامہ اسٹیشن
پر اتنی قوت آگئی کہ بلاکسی مردکے میں ریل سے
خوداترااورمسافرخانہ میں پیدل چلاگیا۔ اورپھر دوبارہ جب
بھاگلپور جانے والی گاڑی آئی آئی تواس پرسوارہوگیااوراسی
حالت میں بھاگلپور پہنچا اور اخیر شب میں فوراًاسٹیشن
بھاگلپورسے پورینی روانہ ہوگیا چونکہ میں بلااطلاع
کانپورچلاآیاتھا اورہمارے کانپورآنے کے بعدہماری چھوٹی بہن کی
شادی ہوئی، اس لیے والدہ صاحبہ اوردیگراقارب کوزیادہ
صدمہ تھا ،بہرکیف جب میں خلاف توقع اچانک مکان پہنچا توسب کوبے
اندازخوشی ہوئی، الغرض جناب والدہ صاحبہ مرحومہ مجھ کولے کرجناب ہمشیرہ
صاحبہ بی بی شافعہ مرحومہ کے مکان محلہ ملاچک شہربھاگلپورتشریف
لائیں اورجناب حکیم امیرحسن صاحب سے علاج شروع ہوا،حکیم
صاحب موصوف نہایت غریب نواز اوردست شفا والے اور والد صاحب مرحوم سے
مراسم رکھتے تھے۔
ان کے علاج سے اللہ تعالیٰ نے
صحت عطافرمائی اورمیں اپنے مکان پورینی واپس ہوا،اس کے
بعدہی فوراً جناب ہمشیرہ موصوفہ کوہیضہ ہوا اوران کاانتقال ہوگیااناللہ
واناالیہ راجعون!جب میں تندرست ہوگیا تو برادری کے بعض
لوگوں نے والدہ سے بہت زیادہ خواہش ظاہرکی اورکہاکہ سہول کی شادی
ہماری لڑکی سے اگرکرادوتواس کی تعلیم کاکل خرچ میں
دوں گا،والدہ مرحومہ راضی بھی ہوگئیں،اورمجھے قبول فرمانے
کوکہا، مگردووجہ سے میں نے انکارکردیا،اول تومیں نے اپنے پڑھنے
کے منافی شادی کرنے کوسمجھا،دوم ہماری طبیعت میں
فطرتاً ہمیشہ سے یہ مضمون ہے کہ اپنی منکوحہ کے میکہ کے
مال سے اپنی ضرورتوں کورفع کرنابے غیرتی سمجھتاہوں،الغرض جب میں
تندرست ہوگیا، اورپھرپڑھنے کے لیے کانپورجانے کاارادہ ہوااورزادِراہ کی
سخت دشواری ہوئی۔
مگرجناب بھائی مولوی محمدرسول
صاحب مدظلہ العالی نے قرض لے کرکانپورکاکرایہ دے دیا، اورمیں
کانپورپہنچا،چونکہ میں کانپورعلالت کی وجہ سے دیرمیں
پہنچا،اس لیے حسب قاعدہ مدرسہ سے ہماراکھاناموقوف ہوگیاتھا،جب میں
وہاں پہنچاتومجھ کوجاگیرچھوٹ جانے کی خبرہوئی، چندروز تودوست
احباب سے کچھ قرض لے کرکھایا،بالآخرفاقہ کی نوبت آئی،اورتین
وقت مسلسل فاقہ پر گزرا،چوتھے وقت غایت کمزوری کی وجہ سے میں
مدرسہ نہیں جاسکا،اس کے قبل برابر جاتا تھا، مگر میں نے اپنے احباب میں
سے کسی پراپناحال ظاہرنہیں کیا،چوتھے وقت جس مسجدمیں بندہ
رہتاتھا، اس میں تنہابیٹھاہواتھاکہ یکایک ایک شخص
اجنبی تشریف لاکرہماراحال دریافت کیا، اور غالباً مبلغ پانچ
روپیہ مجھ کودے کرچلے گئے،اس کے بعدہی مدرسہ میں کھانابھی
مقررہوگیا،اس تاریخ سے آج تک بحمداللہ کبھی فاقہ کی نوبت
نہیں آئی،الغرض کانپورمیں تقریباً چھ سات برس تک میں
رہا،اوروہاں مدرسہ جامع العلوم محلہ ٹپکاپور،مدرسہ فیض عام مکہنیان
بازار،مدرسہ دارالعلوم مسجدتقی چھوٹا بوچڑخانہ، مدرسہ دارالعلوم مسجد رنگیان
چھوٹابوچڑخانہ،مدرسہ احسن المدارس نئی سڑک میں پڑھا۔
ایام قیام کانپورمیں
استاذالفضلاء حافظ حاجی حضرت مولانااحمدحسن وحضرت مولانا محمد فاروق چریاکوٹی،
مولاناحافظ محمداسحاق صاحب مدظلہ العالی بردوانی،مولانامحمدرشیدصاحب
کانپوری، حضرت مولانانور محمد صاحب پنجابی،رئیس الاذکیاء
مولاناعبدالوہاب صاحب بہاری، مولانا خیرالدین صاحب مدظلہ پنجابی،مولوی
فضل احمدصاحب پنجابی،مولوی فیض رسول صاحب پنجابی سے میں
نے تعلیم پائی۔
مگراب ان میں سے جناب مولانااحمدحسن
صاحب ومولانانورمحمدصاحب کی خدمت میں زیادہ روز تک استفادہ علوم
وفنون کاکیا،اورمولوی فضل احمدصاحب مولوی فیض رسول صاحب کی
خدمت میں بہت قلیل روز تک پڑھا۔
کانپورمیں چونکہ متعددمدرسے اوربڑے
بڑے علماء درس دیتے تھے، اس لیے ہرطرح کے طلبہ بکثرت
موجودتھے،اورجوطالب علم زیادہ ممتازہوتے تھے،ان سے بکثرت طلبہ پڑھتے تھے ،
چنانچہ میں نے بھی اپنا اندازیہی رکھاکہ کبھی تین
سبق سے زیادہ نہیں پڑھا،اورباقی وقتوں میں طلبہ کو پڑھاتا
تھا، اورالحمدللہ مجھ سے طلبہ بکثرت پڑھتے تھے،اورپڑھانے والے طلبہ میں سے
ہم پربھی بفضلہ تعالیٰ اچھی نگاہ پڑتی تھی،اسی
زمانہ میں مولوی حکیم انعام الحق صاحب ساکن پورینی
ضلع بھاگلپوری نے بھی شرح تہذیب وغیرہ مجھ سے پڑھی
ہے، اورمولوی حکیم عبداللطیف ساکن پورینی ضلع
بھاگلپوربھی ہدیہ سعیدیہ کے سبق میں ہمارے یہاں
شریک تھے، نہایت افسوس ہے کہ وہ آج کل قادیانی میں
داخل ہوکرخارج عن الاسلام ہوگئے ،اناللہ واناالیہ راجعون“۔ (تعلیم
الانساب،ص:۸ تا ۱۵)
حیدرآبادمیں تعلیم وتدریس:
حضرت مفتی محمدسہول عثمانی
قدس سرہ کان پورکے مختلف
مدارس میں کباراہل علم اورماہرین علوم آلیہ سے بھرپوراستفادہ کے
بعد نئی علمی جولان گاہ کی تلاش میں اپنے چندرفقاء کے
ساتھ، ہزاروں دشواریوں کا زادِسفرلے کرعجائب وغرائب دیکھتے ہوئے
،مشکلات ومصائب جھیلتے ہوئے دوماہ کاپیدل سفرطے کرکے مدرسہ نظامیہ
حیدرآباددکن پہنچے اوروہاں علوم عقلیہ کی تعلیم وتحصیل
کے ذریعہ بے گانگی وبے سروسامانی کامنہ چڑانے لگے،خودتحریرفرماتے
ہیں:
”․․․․․
توبندہ مع اپنے پانچ دوستوں (جن میں سے کچھ کے نام آپ کے صاحبزادے مولوی
محموداحمدصاحب مرحوم نے” تعلیم الانساب“کے حاشیہ پراپنی یادداشت
کے مطابق درج کیے ہیں،شمس العلماء مولانایحییٰ
سہسرائی ، مولانامبارک کریم بہاری،اورحضرت خود)کے حضرت استاذ
الہند مولانالطف اللہ صاحب علی گڑھی مفتی عدالت عالیہ
نظام حیدرآبادکی خدمت میں پڑھنے کے شوق سے پیدل روانہ
ہوئے،راہ میں جھانسی ،للت پور، بھوپال،ہوتنگ آباد،بھوساول ،نماڑ،شعلہ
پور،برھان پورہوتاہوا اور بکثرت عجائب وغرائب دیکھتاہوا اور مہالکہ عظیمہ
میں مبتلاہوتاہوادوماہ میں نظام حیدرآباد،ہزاروں دشواری
کے ساتھ پہنچا،اس دوماہ کے پیادہ سفرکی تفصیلی حالت
اگرلکھی جائے توایک دفترعظیم ہوجائے،الغرض حیدرآبادپہنچ
کرمدرسہ نظامیہ میں ہم سب اصحاب ستہ داخل ہوئے۔
اس وقت وہاں صدرالمدرسین استاذی
جناب مولاناعبدالوہاب صاحب بہاری تھے، جو علوم عقلیہ میں بے نظیرتھے،ہم
سب اصحاب ستہ کاسبق مولاناممدوح کی خدمت میں شروع ہوا۔ اورمیں
نے شمس بازغہ ،قاضی مبارک، میرزاہد،امورعامہ،توضیح تلویح
،سبعہ معلقہ ،مسلم الثبوت، مولانا ممدوح سے حیدرآبادمیں پڑھیں،
اور استاذ الہندمولانالطف اللہ صاحب ممدوح الصدرکی خدمت میں پھرتصریح،
قاضی مبارک،تلویح توضیح،میں شریک رہا،الغرض جب حیدرآبادمیں
تقریباً دوسال تک قیام کرچکااورعلوم عقلیہ کے پڑھنے سے فراغت
ہوگئی توعلوم دینیہ کی تکمیل کی غرض سے
دارالعلوم دیوبند،ضلع سہارنپورحیدرآبادسے بذریعہ ریل
روانہ ہوا،دہلی میں پہنچ کر تقریباً پورارمضان شریف جناب
سیدمولانانذیرحسین محدث کی خدمت میں رہا،مگرمولاناممدوح کی غیرمقلدی
اورحنفیہ کے ساتھ بے جاتعصب اورشیخ فانی ہونے کی وجہ سے
نہیں رہ سکااورعیدالفطرکی نمازکے بعدہی دیوبندروانہ
ہوگیا۔(تعلیم الانساب:ص:۱۵،۱۶)
دیوبندمیں:
حضرت مفتی صاحب قدس سرہ علوم آلیہ
اورعلوم عقلیہ میں ثقاہت وکمال سے آراستہ وپیراستہ ہونے کے بعد
علوم عالیہ ودینیہ کی آخری تعلیمی نسبت
کے لیے فکرمند تھے،اس وقت علوم عالیہ اورعلوم حدیث کی تعلیم
کاچرچا،شہرہ ،غلغلہ اورڈنکاعلماء دیوبند کا بجتا تھا، مگر علمائے دیوبندکے
بارے میں معاندین کاپروپیگنڈہ بھی زوروں پرتھا،جہاں جہاں
علمائے دیوبندکاعلمی شہرہ اٹھتا، وہاں افترا پردازی کاتعفن بھی
عام کردیاجاتاتھا،اورانھیں نجدیت ووہابیت کے القاب سے
نوازا جاتا تھا، اس پروپیگنڈے اورتعفن کے اثرات سے علوم دینیہ
سے وابستہ طبقہ یاعلوم نبوت کارُخ کرنے والے تشنگانِ علوم نبوت بمشکل بچ
پاتے تھے،علمائے دیوبندکے بارے میں ایسے ہی ماحولیاتی
اثرات سے حضرت مفتی صاحب قدس سرہ بھی دوچارتھے،ماحولیاتی اثرات وہاں جانے سے پاوٴں
کی بیڑیاں بنے جارہے تھے،ایسے موقع پرگھر سے بے گھرہونے
کافیصلہ کرنے والے ،مہینوں مہینوں کے پیدل اسفارطے کرنے
والے ،علم کے لیے کئی کئی دنوں کی فاقہ کشی برداشت
کرنے والے اورعلم وفن کوان کے ارباب کمال سے سیکھنے کے خوگرپُرعزم انسان نے
دیوبندجانے کی ٹھان لی اورنفس کویوں تسلی دی
کہ اگروہاں نہ رہ سکا تو ۔#
”ملک
خداتنگ نیست، پائے گدالنگ نیست“
پرعمل کرلیں گے؛چنانچہ حیدرآبادسے
دیوبند جانے کی روئیداد کے لیے رقم طرازہیں:
”الغرض حیدرآبادمیں تقریباًدوسال
تک قیام کرچکا اورعلوم عقلیہ پڑھنے سے فراغت ہوگئی توعلوم دینیہ
کی تکمیل کی غرض سے دارالعلوم دیوبندضلع سہارن پور حیدرآبادسے
بذریعہ ریل روانہ ہوا، دہلی میں پہنچ کرتقریباًپورارمضان
شریف جناب سیدمولانانذیرحسین محدث کی خدمت میں رہا، مگرمولاناممدوح کی غیرمقلدی
اورحنفیہ کے ساتھ بے جا تعصب اورشیخ فانی ہونے کی وجہ سے
نہیں رہ سکا،اورعیدالفطر کی نمازکے بعدہی دیوبندروانہ
ہوگیا،گوعلمائے دیوبندسے میں اس وقت بہت بدظن تھا،اوران کوبے دین
اوروہابی سمجھتاتھا؛مگرچونکہ شیخ الہند،رئیس الاتقیاء
حضرت مولانا محمودحسن رحمہ اللہ ،صدرالمدرسین دارالعلوم دیوبند اپنے
زمانے میں شہرہٴ آفاق اورمسلم استاد اور بے نظیرمشہورتھے؛اس لیے
وہاں پہنچا اورارادہ تھاکہ اگروہاں جی نہ لگاتو #
ملک
خدا تنگ نیست پائے مالنگ
نیست
پرعمل کروں گا،مگروہاں پہنچ کرحضرت ممدوح
کی خدمت میں یوماً فیوماً ان کے علمی وعملی
کمالات اس قدرہم پرظاہرہوتے گئے جوبیان سے باہرہے،اوربے ساختہ میں ان
کی شان میں ۔#
آفاقہاگردیدہ
ام مہربتاں ورزیدہ ام بسیارخوباں
دیدہ ام، لیکن توچیزے دیگری
پڑھتاتھا،غرضے کہ حضرت ممدوح سے اس قدر میں
مانوس ہوا کہ اپنے تمام اساتذہ کوبھول گیا، اور مدرسہ دیوبندمیں
صحاح ستہ ،ہدایہ آخرین،جلالین شریف،بیضاوی شریف
پڑھیں اورکل چودہ ماہ وہاں رہا،جب کل درسیات سے فارغ ہوگیا
توحضرت شیخ الہندممدوح نے حکماً مدرسہ عین العلم واقع شاہ جہاں پور میں
صدرالمدرسین مقررکرکے بھیج دیا“۔ (تعلیم الانساب،ص:۱۵،۱۶)
الغرض حضرت مفتی محمدسہول عثمانی
رحمہ اللہ کے اعلیٰ تعلیمی ذوق یعنی علم
کاحصول کمال کے ساتھ باکمال اہل علم ہی سے ہوناچاہیے،اس کے لیے
حضرت نے ہرقسم کی صعوبتیں اٹھائیں اور مشکل سے مشکل فیصلوں
سے گزرے،انہی فیصلوں میں سے ایک فیصلہ یہ بھی
تھاکہ علمائے دیوبند کے بارے میں شدیدپروپیگنڈے اورذاتی
مناسبت نہ ہونے کے باوجود علوم عالیہ وعلوم نبوت کے لیے دیوبندکی
باکمال ہستیوں کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرناآپ کے تعلیمی اصول
کی مجبوری ہے،جس کے لیے ماحولیاتی اثرات اورذاتی
جذبات کی قیدسے آزادہوکرآپ نے علمائے حق علمائے دیوبندکی
غلامی کاطمغہ اپنے سینے پرسجایااورشیخ الہندمحمودحسن دیوبندی
کی گرویدگی نے مولوی محمدسہول بھاگلپوری کودیوبندیت
سیجوڑدیا،اور دیوبندکا ترجمان اورنمائندہ بنادیا اوردیوبندکا
فیض عام کرنے کے لیے شاہ جہاں پور میں فراغت کے پہلے ہی
سال میں شعبہ تدریس کے آخری زینے، صدرالمدرسین کے
عہدے پرفائزقرارپائے۔
بہرکیف!جس نے حصول علم میں
محنت ،مہارت اوراستادکے انتخاب میں کمال مہارت کااصول اپنائے رکھا تھااللہ
تعالیٰ نے تدریس کے مواقع میں بھی ان کے معیارکی
قدردانی فرمائی،اورشیخ الہندکے اعتمادخاص کامظہراتم بنے۔
حضرت مفتی محمد سہول عثمانی
نوراللہ مرقدہ‘ صوفیانہ غلو اور سوقیانہ سلف بیزاری سے
دامن بچاتے بچاتے جب دیوبندپہنچے تو علمائے دیوبند کے علمی کمال
وروحانی کشش نے آپ کے علمی و روحانی وجود کو نیا جنم دیا
اور آپ دارالعلوم دیوبند کے ممتاز ابنائے قدیم کی فہرست میں
نمایاں درجہ پاگئے اور دارالعلوم کی شخصیات میں آپ کا نام
آیا ، دارالعلوم کے ارباب حل و عقد کے شریک کار ٹھہرے ، دارالعلوم کے
حریت پسندوں میں آپ کا شمار ہونے لگا ۔
دارالعلوم دیوبند کے سابق مہتمم
حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب نوراللہ مرقدہ‘ دارالعلوم کے مشاہیر
اور ان کی انجام دہندہ خدمات کے تحت تاریخ دارالعلوم دیوبند میں
آپ کا تذکرہ ان الفاظ میں فرماتے ہیں:
حضرت مفتی محمد سہول بھاگل پوری :
”آپ دارالعلوم کے ممتاز ابناء قدیم
میں سے تھے، دارالعلوم سے فارغ ہونے کے بعد مختلف دینی مدارس میں
آپ نے مدرسی کی، مدرسہ شمس الہدیٰ پٹنہ کے پرنسپل رہے ،
دارلعلوم دیوبند میں تقریباً ۸/ سال درس دیا پھر تین
سال یہاں کے مفتی کی حیثیت سے کام کیا ، بعد
ازاں مدرسہ عالیہ سلہٹ میں صدر مدرس ہوکر تشریف لے گئے اور عمر
کا آخری حصہ وہیں گزارا،آپ کا علمی فیض بہت ہوا ،شیخ
الادب و الفقہ مولانا اعزاز علی صاحب جیسے لائق اور فاضل علماء آپ کے
شاگردوں میں سے تھے ، ممدوح رقتِ قلب کے ساتھ صاحبِ دل بھی تھے اور
کابر واسلاف کے نقش ِقدم کے انتہائی طور پر محافظ تھے رحمہ اللہ رحمةً
واسعةً، آپ دارلعلوم کی مجلس شوریٰ کے ممبر بھی رہے “۔
(تاریخ دارالعلوم دیوبند ،ص :۶۸، ۱۰۴)
سید محبوب رضوی نے بھی
آپ کے حالات تحریرفرمائے ہیں، ان کے بیان کے مطابق آپ”
دارالعلوم کے رکن رکین اور مشایخ دارلعلوم دیوبندکے منظور نظر
تھے ،دیوبند اور مشائخ دیوبند کے دل آپ کاگھر تھے ، مشائخ کی دل
لگی کامظہر تھے۔۱۳۵۰ھ سے ۱۳۶۲
ھ آپ دارالعلوم (دیوبند) کی مجلس شوریٰ کے رکن رہے ۔
۱۲ رجب ۱۳۶۷ ھ بمطابق ۱۹۴۸ھ
کو وصال ہوا مزار پورینی میں ہے ۔دراز قداور وجیہ
تھے ، جب دیوبند آتے اور استاد شیخ الہند کی خدمت میں
حاضر ہوتے تو حضرت اٹھ کر معانقہ فرماتے ؛چونکہ حضرت پست قد تھے؛ اس لیے مزاحاً
فرماتے کہ ”بھائی مولوی سہول آگئے ، معانقہ کے لیے سیڑھی
لگانی پڑے گی “ بے حد رقیق القلب تھے ، اسلاف کرام صحابہ عظام
کا ذکر آتا تھا تو آنکھیں اشکبار ہوجاتیں اور باتیں کرنا مشکل
ہوجاتاتھا ۔ (مکمل تاریخ دارالعلوم دیوبند ،رضوی ۲/
۸۹ ، ط: میر محمدکراچی)
حضرت شیخ الہند رحمة اللہ علیہ
سے حضرت بھاگل پور ی رحمة اللہ علیہ کے اسی گہرے اعتماد اور
باہمی تعلق کا نتیجہ تھا کہ جب حضرت شیخ الہند رحمة اللہ علیہ
نے ۱۳۳۴ھ مطابق ۱۹۱۷ء میں
تحریک آزادی کو نیا رخ دینے کے لیے ہندوستان سے
استنبول ،حجاز ِمقدس کے لیے رخت سفر باندھا تو آپ کی رفاقت خاصہ کے لیے
ہزاروں لاکھوں تلامذہ اور شیدائیوں میں سے دس ہستیوں کا
ستارہ قسمت جگمگایا، جن میں حضرت مفتی محمد سہول بھاگل پور ی
رحمة اللہ علیہ بھی شامل تھے ۔
چنانچہ سفر نامہ اسیر مالٹا میں
مرقوم ہے :
”مولانا کے رفقاء سفر :
مولانا کی روانگی کوئی
معمولی شخص کی روانگی نہ تھی بہت سے ارباب عقیدت
استفاضہ (فیض حاصل کرنے ) یا خدمت کے لیے ساتھ ہو لیے ․
جن میں سے خاص خاص حضرات حسب ذیل ہیں،مولانا مرتضیٰ
حسن چاندپوری ،مولاناسہول صاحب بھاگل پور ی ،مولوی محمد میاں
صاحب انبیٹھوی ، مولوی عزیزگل صاحب ، ساکن زیارت
کاکا صاحب، حاجی خان محمد صاحب مرحوم، مولوی مطلوب الرحمن صاحب دیوبندی
، حاجی محبوب خان صاحب سہارن پوری ، حاجی عبدالکریم صاحب
سرونجی ، وحید احمد وغیرہ۔ (سفر نامہ اسیر مالٹا،ص:۲۸۔علمائے
ہند کا شاندار ماضی، سید محمدمیاں، ج:۵، ص:۱۲۶،
ط:رشیدیہ کراچی)
مدینہ سے حضرت نے انہی بعض
رفقاء جن میں مولانا سہول عثمانی بھی شامل تھے ،دیوبند کے
مرکز میں کام کرنے کے لیے واپس ہندوستان واپس بھیج دیا “۔
(سفر نامہ اسیر مالٹا ، بیس بڑے مسلمان ، ص: ۲۵۷)
حضرت امام ِ ربانی مولانا رشید
احمد گنگوہی رحمة اللہ سے استفادہ اور منازل سلوک کے کئی مدارج تک
رسائی کے بعد بھی حضرت شیخ الہند سے بھی بیعت و خلافت کے حامل
تھے ۔
ڈاکٹر فیوض الرحمن صاحب ”مشاہیر
علماء“ میں تحریر فرماتے ہیں :
”صوفیانہ مسلک :آپ شیخ الہند
مولانا محمودحسن کے ہاتھ پر بیعت ہوئے اور انھیں سے بعد میں
خلافت حاصل کی “۔ ( مشاہیر علماء ص:۵۱۴)
حضرت مفتی سہول عثمانی رحمہ
اللہ خود نوشت میں سلسلہ تصوف میں استفادہ سے متعلق خود تحریر
فرماتے ہیں :
”اللہ تعالیٰ کا فضل واحسان
ہم پر بہت زیادہ ہے ،اس نے ہندوستان کے اکثراکابر علماء وصوفیہ کی
خدمت و صحبت نصیب کی اور تین دفعہ حج حرمین شریفین
سے بھی سرفراز فرمایا “۔ ( تعلیم الانساب ، ص:۲۰)
علمائے دیوبند بالخصوص حضرت شیخ
الہند، حضرت عثمانی
کے لیے روحانی والد ہونے کے ساتھ ساتھ شفقت ، خیرخواہی
اور برتاوٴمیں نسبی والدکی مانند بن گئے تھے،چنانچہ پہلی
شادی کے بعد دوسری شادی ، جس سے حضرت عثمانی کی نسل
آگے چلی وہ حضرت شیخ الہند مولانا محمودحسن دیوبندی رحمة
اللہ علیہ ہی نے پدرانہ حق استعمال کرتے ہوئے شدید اصرار سے
کروائی تھی، بایں معنیٰ حضرت شیخ الہند، حضرت
عثمانی رحمة اللہ علیہ کی اولاد کے ایسے روحانی
دادا ہیں جنھوں نے حقیقی دادا کی نیابت بھی کی
، اس لیے آپ کی اولاد کے لیے بھی دیوبندی
نسبت ہی موزوں بنتی ہے اور حضرت عثمانی کی نجیب
الطرفین (صدیقی +عثمانی ) اولاد کی خاندانی
شرافت ونجابت کا لازمی تقاضہ ہے کہ یہ خاندان دین اسلام پر عمل
پیرا رہنے کے لیے دیوبندی طریق پر کاربند رہے؛ تاکہ
منزل محمدی تک بآسانی پہنچ سکے ۔
(جاری)
$ $ $
---------------------------------------------
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ7-8، جلد:100 ،
شوال-ذيقعده 1437 ہجری مطابق جولائی-اگست 2016ء